Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

مسلسل ہوتی کال بیل پر زینی نے چولہا دھیما کرکے ایپرن کھول کر ہینگ کیا اور تیز تیز قدموں سے چلتی لان عبور کرکے گیٹ تک پہنچی اور سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ حقیقتاً آنکھیں جھپکنا بھول گئی تھیں۔
”السلام علیکم! پھوپھو جان! میں فاخر ہوں آپ کا بھتیجا۔“ زینی کو گم صم کھڑا دیکھ کر وہ مسکرا کر بولتے ہوئے گیٹ مزید کھول کر اندر آیا اور ٹریول بیگ اندر رکھ کر گیٹ بند کر دیا۔
”اوہ فاخر! میرے بچے“ زینی نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ ان سے لپٹ گیا۔
تھینکس گاڈ! پھوپھو آپ نے پہچان لیا مجھے ،وگرنہ جس طرح سے آپ مجھے دیکھ رہی تھیں میں ڈر رہا تھا دھکے دے کر نہ واپس کر دیں۔“ وہ ان کے ساتھ چلتے ہوئے شوخ لہجے میں گویا ہوا۔
”خیر ایسا تو کبھی نہیں ہو سکتا فاخر! آپ کو دیکھ کر مجھے اپنی آنکھوں پر اس لئے اعتبار نہیں آیا کہ آپ نے واپسی کی راہ نہ چھوڑی تھی۔


”آئم سوری پھوپھو جان! اچھا یہ بتائیں آپ اتنے خوبصورت اور بڑے گھر میں تنہا رہتی ہیں ،کوئی ملازم نہیں ہے نہ گیٹ پر چوکیدار ہے میں سمجھ رہا تھا اندر کوئی نہیں ہے اسی لئے بیل پر انگلی رکھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اگر آپ پانچ منٹ اور نہ آتیں تو میں جانے والا تھا۔“ وہ کمرے میں آکر بیٹھتے ہوئے استفسار کرنے لگا۔
”میں تنہا یہاں ہوتی ہوں پھر بھلا ڈھیروں ملازم رکھ کر کیا کروں گی؟“ وہ اس کے قریب صوفے پر بیٹھ گئی تھیں۔
”دو ملازمائیں آتی ہیں دن میں وہ کام کرکے چلی جاتی ہیں البتہ واچ مین فل ڈے نائٹ ہوتا ہے ابھی وہ کام سے مارکیٹ گیا ہے۔“
”سراج انکل یہاں نہیں ہیں ،ٹور پر گئے ہیں کیا؟“
”ہوں… آنے والے ہیں دو تین دنوں میں ،یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے تم نے ،طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟“ وہ اس کے بے ترتیب بالوں اور بڑھی ہوئی شیو اور سرخ آنکھوں کو دیکھ کر گویا ہوئی تھی لمحے بھر کو وہ کچھ بول نہ سکا۔
”فاخر سب ٹھیک ہے نا… اس قدر ڈسٹرب کیوں لگ رہے ہو تم؟“ وہ صرف ہونٹ بھینچ کر رہ گیا تھا ،نگاہیں جھک گئی تھیں۔
”اوہ میں بھی کتنی بے وقوف ہوں ،پانی کا بھی نہیں پوچھا تم سے ،میں ابھی پانی لے کر آتی ہوں۔“ اس کو ازحد سنجیدہ اور بکھرا بکھرا دیکھ کر وہ کانپ اٹھی تھیں سو بہانے سے وہ وہاں سے اٹھی اور پانی کا گلاس لے آئیں۔
”لو پانی پیو ارے یہ کیا تم نے جوتے بھی نہیں اتارے؟ جوتے اتار کر آرام سے بیٹھو میں کافی بنا کر لاتی ہوں ،ڈنر میں بتا دو کیا کھاؤ گے؟ چکن کڑائی بنائی ہے میں نے تمہارے لئے پاستا بناؤ ،یار اسپیگھیٹی کھاؤ گے؟“ وہ خوشی بوکھلاہٹ و پریشان کن تجسس کا بیک وقت شکار تھیں۔
”آپ اتنا پریشان نہ ہوں پھوپھو جان ،میں کئی راتوں سے سویا نہیں ہوں ،ابھی میں سونا چاہتا ہوں ،اٹھ کر آپ کو سب سچ سچ بتاؤں گا۔“
###
طغرل نے ہسپتال پہنچنے کے بعد معید کو کال کی اور حسب توقع وہ جلد ہی ہسپتال پہنچ گیا اور طغرل اسے گیٹ کے پاس ہی مل گیا تھا۔۔
”اوہ شکر ہے اللہ کا ،تمہیں بظاہر تو ایسی کوئی ڈینجرس چوٹ نہیں آئی ،پری کی حالت کیسی ہے اب؟“ وہ طغرل سے لپٹتے ہوئے گویا ہوا۔
”اس کے سر میں گہرا زخم لگاہے ٹانکے آئے ہیں ،ویسے وہ نارمل ہے جسم میں معمولی نوعیت کے زخم ہیں۔“
”ہوش میں ہے وہ ابھی؟“ معید خاصا متفکر تھا۔
”ڈاکٹر نے نیند کا انجکشن دیا ہے اب سو رہی ہے ،وہ کافی بے چین و درد محسوس کر رہی تھی۔“ طغرل کی چال میں خاصی لڑکھڑاہٹ تھی جیسے زبردستی ٹانگ کو گھسیٹ کر چلنا پڑ رہا ہو ،معید نے تشویش دیکھی اور گویا ہو۔
”چوٹ تمہیں بھی خاصی لگی ہے ،ٹانگ کا ایکسرے کروایا کہیں فریکچر نہ ہو گیا ہو؟“ وہ اس کو سہارا دیتا ہوا گویا ہوا۔
”ہاں ،فریکچر نہیں ہے ،زخم کے ساتھ سوجن ہو گئی ہے۔“ وہ لان میں رکھی بنچوں میں سے ایک پر بیٹھ گئے۔
”پری کو کب تک ہوش آ جائے گا کیا ایڈمٹ کر لیا ہے اسے؟“
”نہیں ابھی نرسز اس کے جسم پر لگے زخموں کی ڈریسنگ کر رہی ہیں ،ایک گھنٹے بعد ہوش میں آ جائے گی وہ اس کی کنڈیشن دیکھ کر ڈاکٹر ڈیسائیڈ کریں گی۔
“ اس کا لہجہ تکلیف سے بھرا ہوا تھا۔
”مجھے تم بھی بے حد تکلیف میں لگ رہے ہو ،یہاں بیٹھنا بہتر نہیں ہے ایک بار پھر بہترین طریقے سے تمہارا چیک اپ کرواتا ہوں چلو پلیز مجھے تم بہت تکلیف میں محسوس ہو رہے ہو۔“
”میں ٹھیک ہوں یار! ڈاکٹر نے پین کلر دیئے ہیں مجھے کچھ دیر بعد آرام آ جائے گا ،تم فکر مت کرو ،ٹھیک ہوں میں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے اسے تسلی دی تھی۔
”تم مجھ سے کہہ رہے تھے معمولی سا حادثہ ہوا ہے ،مگر کار تو تمہاری بالکل ٹھیک ہے اور تم دونوں کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔“ معید اس کی طرف دیکھتے ہوئے الجھن بھرے لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
”معمولی سا ہی حادثہ تھا گاڑی کو نقصان نہیں پہنچا۔“
”کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے طغرل! جس کو تم معمولی حادثہ کہہ رہے ہو ،یہ معمولی حادثہ نہیں ہے بظاہر دکھائی نہ دینے والی چوٹیں عموماً دکھائی دینے والی چوٹوں سے زیادہ خطرناک و تکلیف دہ ہوتی ہیں ،تم لاکھ چھپاؤ مگر میں دیکھ رہا ہوں تم بے حد تکلیف میں ہو۔
”تم مجھے بھول جاؤ پہلے اس پرابلم کو سولو کرو کہ ہماری ہسپتال میں موجودگی کا کسی کو علم اس وقت تک نہ ہو جب تک ہم گھر نہ پہنچ جائیں ،دادی جان بے حد پریشان ہو جائیں گی ،سن کر۔“
”تم کسی کو انفارم کرکے نکلے تھے گھر سے پری کو گھر لانے کیلئے جا رہے ہو؟ خیر تم ایسا کم ہی کرتے ہو۔“ اپنے آخری جملوں پر مسکرایا تو طغرل نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا۔
”آف کورس ،تمہارا آئیڈیا درست ہے ،ہمارا ڈنر کا پروگرام تھا پھر لانگ ڈرائیو ،میں نے سوچا واپسی میں نامعلوم کتنا ٹائم ہو جائے اور ہمارے ویلکم کیلئے دادی جان جوتے تیار رکھیں ،اس ڈر سے میں نے ان کو انفارم نہیں کیا تھا اور میرا وہ فیصلہ کسی طرح بھی غط ثابت نہیں ہوا۔“
”ہوں ٹھیک کہہ رہے ہو ،وگرنہ ابھی تک سب ہسپتال پہنچ چکے ہوتے ،اب تم مجھے بتاؤ اصل قصہ کیا ہے؟ تمہاری حالت تمہارے یہ کپڑے جو جگہ جگہ سے اس انداز میں پھٹے ہوئے ہیں گویا تم نے کسی ایسی جگہ پر قلا بازیاں کھائی ہوں ،جہاں نوکیلی چیزیں پڑی ہوں۔
“ معید کے صحیح تجزیئے پر اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
”ہوں درست کہہ رہا ہوں نا میں ،کہاں گرے ہو تم اور کس طرح؟ تم جیسا بندہ جو بہت سنبھل کر مضبوطی سے پاؤں جما کر چلتا ہو ،وہ بھلا کس طرح گر سکتا ہے؟“ اس کے لہجے میں خاصا اضطراب و بے چینی ابھر آئی تھی۔
”میں کافی اور ساتھ کچھ کھانے کیلئے لاتا ہوں ،تم ریلیکس ہو کر بیٹھو ،پھر مجھے بتاؤ ہوا کیا ہے؟“ وہ اٹھتے ہوئے گویا ہوا۔
###
دکھ پر آنسو چھلک پڑتے ہیں مگر مداوا نہیں بن سکتے۔ آنسو اس نے بھی بے تحاشا بہائے تھے اور دل بوجھل ہوتا چلا گیا تھا۔ غفران احمر کے محل کی قید سے چھٹکارا ملنے کے بعد راستے بھر وہ یہی سوچتی آئی کس طرح امی ابو کا سامنا کے گی؟ کیسے چچی چچا کے سامنے جائے گی اور گلفام سے کس طرح نگاہ ملا پائے گی؟ مگر اپنوں نے ہمیشہ ہی اسے مشکلات سے بچایا تھا کبھی اس کو اپنے سامنے شرمندہ ہونے کا موقع نہیں دیا تھا اب بھی انہوں نے اپنی محبت کی لاج رکھی تھی اس کی نگاہیں چرانے سے پہلے وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنی آنکھیں بند کر چکے تھے ،جانے کے بعد بھی وہ اس کو سرخروئی عطا کر گئے تھے۔
”یہ وہ راستہ تو نہیں ہے اعوان! جو میرے گھر کو جاتا ہے یہ کوئی اور راستہ ہے وہاں کی گلیاں بہت تنگ ہیں ،کچا راستہ بہت زیادہ ہے اور میرے گھر سے پہلے بھینسوں کا باڑہ آتا ہے سرشام وہاں دودھ خریدنے والوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں۔“ اس کے اصرار پر اعوان اسے اس کا گھر دکھانے لے جا رہا تھا اور وہ خوشی و غم کی موجوں میں ڈوبتی ابھرتی ماضی کے جھرکوں میں جھانک رہی تھی جہاں سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ گئی تھی۔
اعوان نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا وہ روتے ہوئے ہنس رہی تھی ،آف وہائٹ کڑھائی والے سوٹ میں اس کے چہرے کی پرسوز خوبصورتی نمایاں تھی۔ وہ نوخیزی کی عمر سے نکل چکی تھی مگر دس سال بعد بھی اس کی خوبصورتی کم نہ ہوئی تھی اس کا میچور حسن اعوان کو اتنا ہی اپیل کر رہا تھا جتنا دس سال پہلے کالج گرل کے روپ میں کرتا تھا۔
”وہ سب خواب بن گیا ہے ماہ رخ! یہ وہی جگہ ہے جہاں کبھی باڑہ ہوا کرتا تھا وہ گلیاں اور محلہ… محلے میں موجود تمہارا گھر وہ دیکھو سامنے جگمگاتا ہوا جو پلازہ دکھائی دے رہا ہے اور دیکھو فرنٹ پر نام بھی موجود ہے کاشانہ رحمت یہ تمہارا گھرا ہے۔
”ہا… میرا گھر…؟“ اس نے ازحد حیرت سے اس جگمگاتے کاشانہ رحمت کو دیکھا پھر آس پاس کے علاقے کو یہ ایک فوڈ اسٹریٹ تھی ،شاندار دکانیں اور اسٹالز لگے ہوئے تھے ،سامنے کشادہ سڑکیں تھیں ،سائیڈ میں پارکنگ تھی جو رنگ برنگی گاڑیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ہنستے مسکراتے ،کھاتے پیتے خوش باش لوگوں کا جم غفیر تھا وہاں۔
”یہ میرا محلہ ،میرا گھر… کیسے ہو سکتا ہے اعوان! وہاں تو بہت بدحالی تھی ،غربت تھی ،یہ تو کوئی اعلیٰ ترین پوش علاقہ ہے۔
“ وہ ماضی و حال کے درمیان ڈوب اور ابھر رہی تھی۔
”یہ سارا علاقہ ایک بڑے بلڈر نے خرید لیا تھا اور اس کی کاوشوں نے اس علاقے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔“
”گلفام کہاں ہے؟“ وہ ایک دم چونک کر گویا ہوئی تھی۔
###
زینی نے کی ہول سے جھانک کر دیکھا تھا وہ ابھی بھی بے خبر سو رہا تھا ،ساری رات گزر چکی تھی اور اب صبح بھی دوپہر میں ڈھلنے والی تھی لیکن اس کی نیند نہیں ٹوٹی تھی ،ان کے اندر ابھرنے والی بے چینی وحشت میں بدلنے لگی تھی ،ایسا کیا ہوا تھا اس کے ساتھ جو اس جیسا رکھ رکھاؤ والا بندہ اپنی سدھ بدھ ہی بھول بیٹھا تھا؟
”کیا کروں؟ آپی کو اطلاع کروں یا عائزہ کو بتاؤں فاخر کے آنے کی؟ نہیں ابھی مجھے اس کے اٹھنے کا انتظار کرنا چاہئے ،خدا جانے اس کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے؟ وہ چہرے سے ہی بے حد پریشان اور بددل دکھائی دے رہا ہے۔
بہت ٹوٹا بکھرا ہوا پھر نہ جانے اس نے عائزہ کے خلاف کوئی فیصلہ کیا ہو ،کئی ماہ گزر گئے اس نے پلٹ کر خبر ہی نہیں لی تھی عائزہ کی۔“
”گڈ مارننگ پھوپھو جان! یہ اتنی گہرائی میں ڈوب کر کیا سوچا جا رہا ہے؟“ وہ فاخر کی آواز سن کر چونک کر پلٹی تھیں۔ وہ برابر آ بیٹھ تھا۔
”اوہ ماشاء اللہ بہت اچھی نیند آئی تمہیں۔“
”جی ہاں اسی لئے میں گھر جانے کے بجائے آپ کے پاس چلا آیا کہ ممی کے بعد مجھے آپ کے پاس ہی سکون میسر آ سکتا ہے۔
“ اس کے لہجے میں اداسی رچی ہوئی تھی۔
”آپ فریش ہو گئے ہیں چلیں پہلے ناشتہ کر لیں ،ہم پھر سکون سے بیٹھ کر باتیں کریں گے ،فاخر میں رات سے آپ کیلئے اپ سیٹ ہوں۔“ وہ اٹھتے ہوئے اپنے دل کی حالت بیان کر بیٹھی تھیں۔
”میں نے آکر آپ کو بھی پریشان کر دیا ہے پھوپھو جان!“ اس کے لہجے میں شرمندگی و تاسف تھا۔
”ارے کیسی باتیں کرتے ہو میرے بچے! میں تمہارے آنے سے پریشان نہیں ہو بلکہ تمہیں پریشان دیکھ کر بے چین ہو گئی ہوں ،ناشتے میں کیا لو گے؟ تمہاری وجہ سے میں نے صرف بیڈ ٹی پی ہے۔“
”آئم سو گلٹی ،چلیں میں بھی آپ کی ہیلپ کراتا ہوں بریک فاسٹ بنانے میں ساتھ ساتھ وہ باتیں بھی آپ کو بتاتا جاؤں گا ،جو میں صرف ابھی آپ سے ہی کرنے آیا ہوں۔“

   1
0 Comments